تحریر: مولانا سید محمد حیدر اصفہانی، امام جمعہ وکرولی، ممبئی
حوزہ نیوز ایجنسی। وسیم رضوی ملعون کہ جس کو وسیم رشدی کہنا زیادہ مناسب ہے ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ قرآن مجید کے سلسلے میں اس کی ہرزہ سرائی اور توہین سے مسلمانوں میںایک ہیجانی کیفیت سی طاری ہے نیز اس ملعون کی مذمت کا سلسلہ بھی تا بحال جاری و ساری ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ صورت حال اچانک وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ دشمنان اسلام کی جانب سے سعی پیہم کا نتیجہ ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ خبیث کئی برسوں سے دشمنان اسلام کا مہرہ اور آلہ کار بنا ہوا ہے اور جو کچھ عام طور سے وہ نہیں کہہ سکتے وسیم رضوی سے کہلواتے ہیں اور آگے چل کر اس سے کیا کیا کہلوائیں گے معلوم نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کسی کے اندر اتنی جرأت کیسے پیدا ہوگئی کہ وہ خود جس مذہب اور دین کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے بارے میں اتنی آسانی سے وہ سب کچھ کیسے کہہ دیتا ہے کہ جو عامطور پر ایک غیر مسلم بھی نہیں کہتا اور وہ قرآن جیسی کتاب کے تقدس کا قائل نظر آتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہم ان میں دو تین اہم اسباب کی جانب آپ کی توجہات مبذول کروانا چاہتے ہیں۔
آج اسلام اتنا مظلوم ہو گیا ہے کہ جسے دیکھو دین اور شریعت کے بارے میں اپنی رائے اور اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے آج کل دین پر اپنی رائے دینا بہترین مشغلہ بھی بن گیا ہے جسے دیکھو دین و شریعت کے بارے میں اپنےخیالات کا اظہار کرتا ہوا نظر آ رہا ہے چاہے عربی پڑھنا لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، قرآن سے کوئی واسطہ ہو یا نہ ہو اور چاہے حدیث کی "ح" سے بھی واقف نہ ہو لیکن دین اور شریعت کے بارے میں ایسی بحثیں کرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ جس کو دیکھ اور سن کر ہر انسان اپنی کم بضاعتی اور کم علمی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن اس کے برعکس جب ہم دنیاوی علوم بالخصوص سائنسی علوم میں دیکھتے ہیں تو وہاں ہر انسان ہمہ تن گوش نظر آتا ہے اور اس کے بارے میں اس کے ذاتی نظریات ناپید ہو جاتے ہیں۔ مثلا کسی ڈاکٹر کے نسخے پر اعتراض نہیں ہوتا بلکہ مرض سے افاقہ نہ ہونے کی صورت میں اپنی بیماری کو قصوروار مانتے ہیں۔ کسی انجینئر کے پروجیکٹ کو ماننے سے انکار نہیں کرتے۔ کسی سائنٹسٹ کے نظریہ کو آمنا اور صدقنا کہہ کر قبول کر لیتا ہے لیکن جیسے ہی شریعت کا کوئی مسئلہ سامنے آیا اس میں جب تک اپنی رائے کا اظہار نہ ہو جائے سکون نہیں ملتا۔ جبکہ دنیاوی مسائل میں اگر اپنی رائے کا اظہار کیا جائے تو اتنا نقصان دہ نہیں ہے لیکن شریعت میں مداخلت کرنے سے نہ یہ کہ دنیاوی اعتبار سے مسائل پیدا ہونگے بلکہ آخرت میں بھی خسران مبین کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا بہر صورت در پیش دینی مسائل کے حل و فصل کے لئے اس کے متخصصین کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے اور دینی مسائل میں اپنے ذاتی نظریات کو دور رکھا جاتا چاہئیے اور اسی لیے ہم درجہ اجتہاد پر پہنچ چکے علماء کو مرجع "یعنی جس سے حل مسئلہ کے لیے رجوع کیا جائے" سے تعبیر کرتے ہیں اور جو ہم نہیں جانتے انہیں سے دریافت کرکے عمل کرتے ہیں۔ قرآن کا بھی یہی حکم ہے "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون" یعنی اگر نہیں جانتے تو اہل ذکر اور اہل علم سے دریافت کرو۔
وسیم رضوی ملعون کہ جسے قرآن کے بارے میں ذرہ برابر بھی علم نہیں ہے نہ وہ عربی گرامر سے واقف ہے اور نہ ہی ترجمہ و تفسیر سے دور دور تک کوئی اس کا لینا دینا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آج وہ کیسے اس قابل ہو گیا کہ قرآن کی آیات کو انسانیت اور ملک کے خلاف بتا رہا ہےحتی اسے اللہ کی آیات ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس کی یہ جسارت ہماری خاموشی اور دین سے صحیح معنوں میں واقف نہ ہونے کی بنیاد پر ہے جب کہ یہ بات مسلم اور متفق علیہ ہے کہ اصل دین اور منابع دینی میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے بالخصوص قرآن مجید کی مصونیت کی دلیل خود اسی کتاب خدا میں موجود ہے نیز تمام علماء متقدمین و متاخرین نے بھی متفق علیہ طور پر تحریف قرآن سے انکار کیا ہے لہذا اس سلسلے میں وسیم رضوی جیسے جاہل مطلق کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اگر کہیں اختلاف ہے بھی تو وہ ترجمہ اور تفسیر کی حد تک ہے متن قرآن حتی ایک نقطے میں اختلاف رائے موجود نہیں ہے۔ لہذا اس کا یہ کہنا کہ قرآن مجید میں معاذاللہ چھبیس آیات، اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ بعد میں خلفاء راشدین کے ذریعہ شامل کی گئیں ہیں سراسر گمراہ کن اور سوچی سمجھی سازش ہے کہ جس کے تار موجودہ حکومت اور آر ایس ایس سے جڑے ہوئے لگتے ہیں۔
اور دوسری بات کہ جس کی وجہ سے وسیم رضوی جیسے لوگ بڑی آسانی سے شریعت اور دین کا مذاق بناتے ہیں وہ ہمارے درمیان تعصبات کا پروان چڑھنا ہے اور علمی ڈیبیٹس کا نہ ہونا ہے جبکہ ہمارے مذہبی اجتماعات کے موضوعات کا زیادہ تر حصہ جزبات اور احساسات کو برانگیختہ کرنے میں صرف ہو جاتا ہے اور دلیل و برہان سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اور یہ بات ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمارے برصغیر کے علماء نے قرآن کے سلسلے میں کام نہ کے برابر کیا ہے میری تمام باتیں بھی برصغیر کے مذہبی حالات تناظر میں ہی ہیں۔
ایک اور اہم سبب کہ جس کی بدولت وسیم رضوی یا دیگر انحراف پسند عناصر وجود میں آتے ہیں وہ دنیا پرستی ہے، اشتہائے جاہ و منزلت ہے کہ جس کے حصول کے لیے انسان اپنے دین کا سودا کر لیتا ہے اور تھوڑی دیر کی دنیا کے عوض ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی اور آخرت کو فروخت کر دیتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے "بل تؤثرن الحیاۃ الدنیا والآخرۃ خیر و ابقی" یعنی تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت تمہارے حق میں بہتر اور پائیدار ہے۔ لہذا اگر آج وسیم رضوی یا کل کسی عمر سعد نےحکومت، دولت یا شہرت کے لئے اپنے دین کو بیچا تھا تو آخرکار نہ اسے دنیا ہی ملی اور نہ آخرت۔ لہذا وسیم رضوی ملعون کا انجام بھی اسے سے مختلف نہیں ہوگا۔
وسیم رضوی ملعون جانتا ہے کہ اس کا عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے اور اس کی بھر پور مخالفت بھی ہو رہی ہے لیکن اس کی پشت پناہی اتنی مضبوط ہے کہ اسے بظاہر کسی کی پرواہ نہیں حتی اگر اس کے بیوی بچے بھی اس کے مخالف ہو جائیں تو بھی اس کے بقول وہ اپنے نظریات سے منصرف نہیں ہوگا۔ اب اس مجبوری کو کیا نام دیا جائے مجھے نہیں معلوم۔
آخر میں حقیر کہنا چاہتا ہے کہ اس واقعے سے عبرت حاصل کریں خود کو اور اپنی نسلوں کو بھی قرآن سے کما حقہ منسلک کریں تاکہ ہمارے معاشرے میں مزید وسیم رضوی پیدا نہ ہوں۔ رسول گرامی(ص) کے ایک قول کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جس میں آپ نے فرمایا "میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت (ع) ہیں۔" اگر اہل بیت علیھم السلام کی محبت اور مودت واجب ہے تو قرآن کی تعلیم اور اس پر عمل بھی ہمارے معاشرے میں نظر آنا ضروری ہے تاکہ رسول روز قیامت اپنے اللہ سے شکایت نہ کریں کہ "یا رب ان قومی اتخدوا ھذا القرآن مھجورا" کہ اے پروردگا میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
خدا ہم سب کو خادم قرآن قرار دے۔ اور قرآن کی اہانت کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرے۔